گوجرانوالہ”پریس کلب ہمارا گھر ہے”

قارئین ! آج کا کالم بلحاظ عنوان بہت حساس ہے اور غور طلب ہے اور یہ بہت ہی ضروری ہے کہ اس پہ بات کی جائے۔ گوجرانوالہ کہ سرزمین صحافتی افزائش کے حوالے سے انتہائی زرخیز رہی ہے بہت سے نامور صحافیوں نے گوجرانوالہ کی سرزمین سے اپنی صحافتی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کیا اور دنیا بھر میں پاکستان اور گوجرانوالہ کا نام روشن کیا ۔ صحافت کے ان بڑے ناموں میں اسماعیل ضیاء ، قریش نعیم ، آصف بھٹی ، حافظ خلیل الرحمن ضیا ، اعجاز میر ، ملک محمد اکرم اور رانا محمد خالد سمیت کئی بڑی بڑی کلاسک ہستیاں شامل ہیں ۔ لوگوں کا رجحان پرنٹ میڈیا سے ہٹ کر الیکٹرانک میڈیا کی طرف ہوگیا جو ایک فطری امر تھا۔ ملک بھر کی طرح تبدیلی کا اثر گوجرانوالہ پہ بھی پڑا ۔ میدان صحافت میں چند مخصوص افراد کی بجائے نئے اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ افراد نے قدم رکھا اور سارے نظام نے جدت اختیار کرلی۔ لیکن جہاں جدت پسندی کے فوائد ہوتے ہیں وہیں ان کے مضمرات بھی ہوتے ہیں ۔ جو درج زیل ہیں ۔ اس آزادی کا فائدہ اٹھاتے ہوں سرمایہ دار افراد کی ایک بڑی کھیپ نے چند مفاد پرست عناصر کی مدد سے صحافتی کارڈز بنوائے اور اپنے آپ کو سیکیور کرلیا ۔ صحافتی زبان میں اسے شیلٹر لینا کہتے ہیں ۔ جس کا بے تحاشہ نقصان ہماری گوجرانوالہ کی صحافت کو اٹھانا پڑ رہا ہے ۔ قارئین ! آج تک گوجرانوالہ میں پریس کلب کے حصول کی جنگ کئی سالوں سے جاری ہے لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔
اسی ورکر صحافی کو ہمیشہ صحت ، انشورنس ، معاشی فوائد سمیت متعدد حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے تاکہ وہ بس دووقت کی روٹی کمانے میں مصروف رہے ،
افسوس کی بات تو یہ ہے کہ تنظیموں کے قائدین اپنے کسی زاتی مسئلے یا انتظامیہ کے خلاف احتجاج کے نام پہ ان ورکر دوستوں کو ہمیشہ یاد رکھتے ہیں لیکن جب وقت نکل جاتا ہے تو آنکھیں پھیر لیتے ہیں اور ورکر ہمیشہ کی طرح تہی دامن رہ جاتا ہے ۔ دوستو ! کیا یہ سب ایسے ہی چلتا رہے گا۔  دوستو ، یہ حقیقی معنوں میں ہم سب کیلئے لمحہ فکریہ ہے ۔ ہم جس تنظیمی پلیٹ فارم سے بھی شعبہ صحافت کی خدمت کریں وہ ہمارا انفرادی فیصلہ ہے لیکن اجتماعی طور پر ہمیں ہر تنظیم کا احترام کرنا ہوگا ۔ ہر ایک کے منشور کا احترام کرنا ہوگا۔ اس وقت گوجرانوالہ کی صحافت میں بہت سے سینئر صحافی اور اکابرین مختلف اخبارات اور چینلز کے پلیٹ فارمز سے شعبہ صحافت میں مصروف عمل ہیں اور جونئیرز کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں ۔ راجہ حبیب الرحمن ، چوہدری یاسر علی جٹ ، راجہ ماجد ، شفقت عمران ، میاں صبیح الرحمن ، ڈاکٹر عمر نصیر ، لالہ عمران ، مبشر بٹ ، ملک مظہر سعید ، ملک جاوید اقبال شانی ، میاں فاروق عارف ، ملک توصیف کاشمیری ، محمد آصف سیٹھی ، آصف صدیقی ، حافظ طاہر قیوم قادری ، افتخار علی گل ، سکندر اعظم ، غلام شبیر احمد ، پیر اشرف شاکر ، ڈاکٹر محمد الیاس بٹ ، میاں رفیق مہر ، میاں عدیل ارشد آرائیں عابد حسین گورائیہ ، راجہ افضال عزیز ، عشرت الماس چوہدری سمیت متعدد نام ایسے ہیں جو ورکر دوست کی پکار پہ آہنی طاقتوں سے بلا خوف و خطر ٹکرا جاتے ہیں اور اپنا حق لے کر چھوڑتے ہیں ۔ یہ تمام دوست اپنی اپنی صحافتی تنظیموں سے بھی منسلک ہیں اور اپنے ماتحت دوستوں کو کبھی تنہا نہیں چھوڑتے لیکن پتا نہیں کیوں پریس کلب کی بحالی اور اس کے باقاعدہ انتخابات کی راہ میں کون سی ایسی رکاوٹ ہے جس پہ کوئی بھی فرد غیر مشروط متفق ہونے کو تیار نہیں ہے ۔ میں خود بھی ایک بین الاقوامی تنظیم میں گوجرانوالہ سے بطور جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہا ہوں ۔ اور میرا بھی یہی منشور ہے کہ میں اپنے جونئیر و سینئیر دوستںوں کی ہر دکھ تکلیف میں برابر کھڑا ہوں ۔ دوستو ! اب وقت آگیا ہے کہ ہم پریس کلب کی بحالی کیلئے مخلص قیادت کی سربراہی میں متحرک ہوجائیں ، میری ذاتی کوشش بھی یہی ہے کہ گوجرانوالہ کے تمام صحافتی دھڑے پریس کلب کی بحالی کیلئے ایک پیچ پہ آجائیں . پریس کلب کی رکنیت سازی میں شفافیت کا عنصر نمایاں ہو تو یقین کریں گوجرانوالہ کا نام میدان صحافت میں ہمیشہ جگماتا رہے گا ۔ ضرورت صرف نیت اخلاص کی ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ گوجرانوالہ کے تمام صحافی قائدین گوجرانوالہ پریس کلب کیلئے متحد ہوجائیں ۔
موج اٹھے یا آندھی آئے ،
دیا جلائے رکھنا ہے ،
گھر کی خاطر سب دکھ جھیلیں ،
گھر تو آخر اپنا ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں