کھیلوں میں سیاست

تحریر : عمارہ کنول

بنگلہ دیشی کھلاڑیوں نے صرف کرکٹ کھیلی اور خوب کھیلی اور ایک بڑی فتح حاصل کر کے اپنی مسائل میں گھری قوم کو ایک اچھی خبر دی۔

پاکستان میں کھیلوں کی یہ تنزلی افسوسناک ہے۔ دنیا کی کمزور ترین ٹیموں سے شکست پر قوم شرمندہ اور مایوس ہے۔ حالیہ ورلڈ کپ میں ہمارے شاہینوں کی

ایک زمانہ تھا کرکٹ گراؤنڈز میں ہمارے بولر اور بیٹسمین چھائے ہوئے تھے۔ عمران، وسیم، وقار، شعیب کے سامنے دنیا کے بڑے بڑے بیٹسمینوں کی ٹانگیں کانپتی تھیں اسی طرح ماجد خان۔ ظہیر عباس۔

بدقسمتی سے ہمارے قائد آزادی کے ایک برس بعد ہی رحلت فرما گئے ان کی موت پر آج بھی سوالات اٹھتے ہیں جس کا تسلی بخش جواب کسی کے پاس نہیں۔

ان واقعات کا جواب اور سبب کسی کے پاس نہیں۔ ملک معاشی اور سماجی تنزلی کا پہلے ہی شکار ہے۔ عوام نہ صرف حکومت بلکہ ریاست سے بھی بدظن اور مایوس ہو چکے ہیں اور ہر شخص کی خواہش ہے کسی بھی طرح ملک چھوڑ جائے۔  ہر شخص کسی بھی طرح ملک چھوڑ دینے کی کوشش میں لگا ہوا ہے اور لاکھوں لوگ ہجرت کر چکے ہیں جس کے باعث بڑے پیمانے پر برین ڈرین ہو رہا ہے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں رہا کہ پاکستان میں کھیلوں پر بھی سیاست کا سایہ گہرا ہوچکا ہے کرکٹ ٹیم ہو، ہاکی، اسکواش، فٹبال، ایتھلیٹکس ہر کھیل زوال کا شکار ہے اور زوال بھی ایسا کہ پستی کی کوئی انتہا نہ رہے۔ ایک زمانے میں پاکستان کا جھنڈا کرکٹ، ہاکی، اسکواش تینوں کھیلوں میں لہراتا تھا۔

اس زمانے میں کھیلوں کا انتظام متعلقہ بورڈز کے ذریعے کیا جاتا تھا، ٹیم تباہ کی جانے لگی اب حالت یہ ہے کہ ہاکی کی قومی ٹیم ادھار کے پیسوں پر روانہ ہوئی ملک کے لیے ہاکی کھلینے کے لیے۔

بنگلادیشی ٹیم سے ہارنے کے بعد میچ میں شکست اب قوم اگر مگر اور امکانات کے چکر میں پڑی ہوئی ہے۔ ٹیم کی تربیت کے دعوے بلکہ ہر کھیل میں مداخلت اور نتیجہ سامنے ہے۔ بھارت اور امریکا سے شکست کے بعد قوم کو شرمندہ کرنے والے حکام اب تحقیقات ٹیم میں تبدیلی وغیرہ کی باتیں کرکے پھر لیپا پوتی کریں گے لیکن جان نہیں چھوڑیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں