Prof. Aniyat ullah Qureshi

وطن عزیز کا دفاع اپنی جان سے پیارا ہونا چاہیے،تحریر۔

پروفیسر عنایت علی قریشی

پاکستان اور بھارت دو ہمسایہ ممالک ہیں۔جن کے آپس میں تعلقات آزادی حاصل کرنے سے پہلے سے خراب رہے ہیں۔ان کے تعلقات خراب ہونے کی وجہ ہندو مسلم دشمنی ہے۔پاکستان اور بھارت کے آزادی حاصل کرنے کے بعد بھی ان کے آپس میں تعلقات خراب ہیں۔آج پاکستان کو آزادی حاصل کئے ہوئے 77سال ہوچکے ہیں۔لیکن بھارت نے پاکستان کو آج تک تسلیم نہیں کیا۔بھارت پاکستان کو اپنا اٹوٹ انگ بناناچاہتاہے۔اور پورے برصغیر میں اپنی برتری قائم کرنے کا خواہاں ہے لیکن پاکستان نے ایسا کبھی نہیں سوچا۔پاکستان تو یہ چاہتاہے۔کہ آپس میں مل بیٹھ کر رہیں۔اس کے ساتھ ساتھ پاکستان علاقے میں برابری کی سطح قائم کرنا چاہتاہے۔پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں خرابی کی سب سے بڑی وجہ مسٔلہ کشمیر ہے۔جو گزشتہ کئی برسوں سے ان دونوں ممالک کے درمیان خرابی کا باعث ہے۔بھارت کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ بنانے کی تگ ودو میں لگاہواہے۔لیکن مقبوضہ کشمیر کے مسلمان پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے مسٔلہ کی وجہ سے آپس میں تین بڑی جنگیں یوئیں۔ان میں سے پہلی جنگ 1948ءکو ہوئی.دوسری 1965ءاور تیسری 1971ءمیں ہوئی۔بھارت پاکستان کو سرے سے ہی ختم کرنا چاہتاہے۔یا پھر پاکستان کو اتناکمزور کردے۔کہ وہ بھارت کا خود بخود دست نگر بن جائے اس وقت بھارت عالم اسلام کا سب سے بڑا دشمن تصور کیاجاتاہے۔اس کے ساتھ اسرائیل اور امریکہ بھی پیش پیش ہیں۔بھارت کی تو اسلام دشمنی ان کے اپنے قومی ترانے می واضع نظر آتی ہے۔یہ ممالک عالم اسلام کو ختم کرناچاہتے ہیں۔اس سلسلے کی ایک کڑی بھارت کے ایٹمی دھماکے ہیں۔بھارت کے بڑے دشمن اس کے ہمسایہ ممالک چین اور پاکستان ہی نہیں ہیں۔بلکہ تمام عالم اسلام ہے۔جن پر وہ آج بھی اپنا تسلط کرنے کے خواب دیکھ رہاہے۔آج تمام دنیامیں جتنے بھی مسلمان ممالک ہیں۔ان میں آپس میں ذاتی مفادات کی چپقلش ہیں۔اور عالم اسلام کے دشمن اسکافائدہ اٹھارہے ہیں۔اور ان کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان ممالک کاآپس میں لڑتے رہیں۔اور ان کے تعلقات خراب ہو جائیں۔ان میں کبھی اتفاق قائم نہ ہونے پائے۔پاکستان کی آزادی حاصل کرنے کے بعد اس کا دفاع بھی ضروری ہے۔آزادی کہنے کو تو چھوٹالفظ ہے۔لیکن اس کا مطلب بہت بڑاہے۔ہرجاندار وذی روح آزادی کا خواہاں ہے۔آزادی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔آزادی کے حصول کےلئے تن من دھن قربان کرناپڑتاہے۔آزادی کی کوئی قدر نہیں ہے آزادی حاصل کرلینا تو کچھ آسان ہے۔لیکن اس کا دفاع ایک مشکل اور کٹھن مرحلہ ہے۔آج ہمیں اپنے وطن عزیز کا دفاع اپنی جان سے پیاراہوناچاہیے۔آج ہمیں بھی پابندیوں کے بعد یہ بتاناہوگا۔کہ ہم کسی سے پیچھے نہیں۔بلکہ ہم وطن کازیادہ بہتر طریقے سے دفاع کرسکتے ہیں۔اور وقت آنے پر وطن کی آزادی کی حفاظت کےلئے اپنے خون کاآخری قطرہ بہاسکتے ہیں۔آج پاکستان دنیاکی ساتویں بڑی طاقت بن چکا ہے۔اور اس کا سہرا مرحوم ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ان کی ٹیم کے سرجاتاہے۔اب ہمیں اس طاقت کو قائم رکھنایوگا۔ تاکہ اپنے وطن کا دفاع کرسکیں۔ہماری مسلح افواج نے آج تک ملک کا دفاع کیاہے۔اور کرتے رہیں گے۔اور پاکستان عوام ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔وطن کا دفاع صرف یہ ہی نہیں کہ ہم فوج کو تیار کردیں۔ کہ وہ بیرونی حملے کےلئے تیار رہیں۔اب اتحاد،یقین کامل م، جدوجہد مسلسل اور کوششوں کے علاؤہ نقائص سے پاک منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ملک سے کرپشن کو ختم کرنا ہے۔قوم آج عزم اور یقین کی دولت سے مالامال ہے البتہ ہمارے بالائی طبقہ کے حوالے سے اپنے طرز عمل پر نظرثانی کرنا ہوگی۔آدمی کی حالت بہتر بناناہوگی۔ملک میں روزگار کے مواقع پیداکرناہونگے۔دونمبر اور ملاوٹی اشیاء فروخت کرنے والوں،ذخیرہ اندوزوں اور پیٹرول پمپوں پر پوری قیمت لےکر کم پیٹرول ڈالنےوالوں کی سرکوبی کرنا ہماری اولین ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے۔تب جاکر ہمارا ملک سرسبزوشاداب ہوسکتاہے عام آدی خوشحال ہوسکتاہے آج ہمیں عزم اور یقین کے ساتھ ریشہ دوانیوں اور مخالف پروپیگنڈے کو ناکام بناناہوگا۔سیاستدانوں کو دانش مندی اور حب الوطنی کا مظاہرہ کرناہوگا۔انھیں کرسی کاکھیل ختم کرکے ملک وقوم کی خاطر ملکی استحکام وسلامتی کےلئے کام کرنا ہوگا قومی معاملات میں تعاون کی پالیسی اپنانا پڑے گی۔مسلح افواج پاکستان کے ساتھ ساتھ ایک عام آدمی کو بھی اپنامثبت کردار ادا کرنا ہوگا۔تبھی ملک کا دفاع مزید بہتر طریقے سے ہوسکتاہے۔1965ءکے شہداء کو پوری قوم خراج عقیدت پیش کرتی ہے۔پاکستان کی مسلح افواج وطن عزیز کی سرحدوں کی حفاظت کےلئے ہروقت تیار ہیں۔اور بھارت نے جب بھی ملک پاکستان کو میلی آنکھ سے دیکھا تو اس کے دانت کھٹے کردئیے جائیں گے۔

اےوطن تونے پکاراتو لہو کھول اٹھا۔۔
تیرے بیٹے تیرے جانباز چلے آتے ہیں۔۔
تیری بنیاد میں ہے لاکھوں شہیدوں کالہو۔۔
ہم تجھے گنج دوعالم سے گراں پاتے ہیں۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں