سال 2002 میں زکریا یونیورسٹی ملتان کے شعبہ صحافت سے ایم اے کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد اس وقت کے ریجنل سطح پر مقبول اخبار نیا دور میں ڈیسک پر صحافتی خدمات کا آغاز کیا نیوز ایڈیٹر ضیاء بلوچ صاحب کی زیر سرپرستی کام سیکھنے کا بہت موقع ملا اس وقت چیف ایڈیٹر چوہدری یونس صاحب سے بھی ملاقات ہوتی رہتی تھی جبکہ عارف معین بلے صاحب کے نیا دور سے علیحدگی کے آ خری معاملات طے ہو رہے تھے ڈیسک پر فیصل اکرم ،عباس ڈوگر ،طارق جاوید (مرحوم)سمیت سئنیر موجود تھے جبکہ شعبہ رپورٹنگ میں جمیل قریشی, طارق قریشی ،سجادخان،خالد ٹائیگر بھی عروج پر تھے 2003 میں پریس کلب کی ممبر شپ ملی تو اس وقت راو شمیم صاحب صدر تھے الیکشن کی گہما گہمی دیکھنے کو ملی اس کے بعد 2005میں ملتان سے روزنامہ پاکستان ملتان کی اشاعت شروع ہوئی تو ریذیڈنٹ ایڈیٹر شوکت اشفاق صاحب کی زیر نگرانی کام کرنے کا موقع ملا شوکت اشفاق صاحب نے مھجے ڈیسک سے رپورٹنگ میں شفٹ کر دیا اور رپورٹنگ میں میرے استاد اور رہنما بنے ابتدا میں ہر کسی کی طرح مجھ سے بھی بہت غلطیاں ہوئی مگر شوکت اشفاق صاحب نے کسی بھی موقع پر میرا اعتماد ختم نہیں ہونے دیا بلکہ لاہور سے شائع ہونے والے سپورٹس ایڈیشن میں باقاعدہ جگہ مختص کروائی کام چلتا رہا اور 2015 میں شوکت اشفاق صاحب سے اجازت لے کر ایکسپریس گروپ جوائن کر لیا وہاں پر جب کارکنان پر جھاڑو پھیرا گیا تو اس میں ہم بھی شامل تھے بحال اس کے بعد بیھٹک اور پھر ندائے اقبال میں بھی کام کرنے کا موقع ملا بحال 2024میں ایک مرتبہ پھر شوکت اشفاق صاحب کے زیر سایہ کام میں مشغول ہیں 22,23سال صحافت کرنے کے بعد گذشتہ دنوں ایکریڈیشن فارم جمع کروایا چار ماہ بعد وہاں کے کلرک نعیم صاحب نے بتایا کہ آ پ کا فارم جمع نہیں ہوا دوبارہ جمع کروائیں فون پر ہونیوالی گفتگو سے اندازہ ہو گیا کہ جناب کے آ داب اور تعلیمی قابلیت کتنی ہوگی اس کے بعد جب دفتر گیا تو انھوں نے شرائط نامہ رکھ دیا حالانکہ 2018 تک ہر سال کارڈ بنتا رہا ڈائریکٹر بھی تبدیل ہوتے رہے ڈی جی بھی مگر آ ج جو صحافی کی عزت ڈائریکٹر تعلقات عامہ سجاد جہانیہ کے کمرے میں دیکھی وہ بڑے سے بڑے ادارے صحافتی فرائض میں جرت نہ کر سکے جب میں شرائط پر سوال کیے تو ڈائریکٹر صاحب نے کہا کہ اس کا ایک ہی حل کے کارڈ نہ بنوایں ان کے منہ سے یہ بات سن کر پورے جسم میں ایک آ گ کا شعلہ جل اٹھا اور کہنے کو بہت کچھ تھا کہ ان کو کس نے اختیار دیا کہ وہ ایک ورکنگ جرنلسٹ کو یہ مشورہ دیں کہ آ پ کارڈ ہی نہ بنواے یہ حق صرف اور صرف ورکنگ جرنلسٹ کا ہے اگلا مرحلہ آ پ کے شعبے کا ہے جو اختیار رکھتا ہے کہ کارڈ بنے گا یا نہیں 23سال کی صحافت کے بعد پریس کلب کی جانب دیکھتا ہوں تو وہاں پر عہدیدار تو ہیں مگر ممبر کی عزت غائب ہے اسی طرح ایم یو جے کے پائنیر ممبران اور متعدد بار انتخابات میں حصہ لینے کے باوجود اس پلیٹ فارم سے بھی اقدامات کے منتظر ہیں ایکریڈیشن کارڈ کے لئے نئے قوانین بنوانے کا تعلق بھی صحافتی برادری سے ہے یہ تعلق بھی اس سرکاری محکمے سے ہی جوڑا ہوا ہے بحال میں تو کارڈ کی بجائے عزت کو ترجیح دے کر کارڈ نہ بنوانے کا فیصلہ کیا ہے حالانکہ کارڈ کی تمام شرائط با آسانی پوری کرسکتا ہوں مگر یہ بات دل میں بیٹھ گئی ہے کہ آ پ کارڈ ہی نہ بنواے


